۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ امین شہیدی

حوزہ/ مسجد خدیجۃ الکبریٰ بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں استقبال ماہِ محرم کی مجلس سے خطاب میں امت واحدہ پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سوگ منانے کا مطلب محض سیاہ لباس میں ملبوس ہوکر کھڑے رہنے کا نام نہیں! ماہِ محرم کے آغاز سے ہی ہمارا قلب درد و حزن کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ ہماری روح اس درد سے متصل ہو جاتی ہے اور جی نہیں چاہتا کہ خوشی کا اظہار کریں۔ غمِ حسینؑ وہ کیفیت ہے، جس سے انسان کی زندگی کا اسلوب تبدیل ہو جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے مسجد خدیجۃ الکبریٰ بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں استقبال ماہِ محرم کی مجلس سے خطاب کیا۔

انہوں نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر محزون ہونے اور گریہ کرنے کی وجوہات و اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ تاریخِ انسانی ظلم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، یہاں تک کہ کئی انبیاء کو ان کی امت کے افراد نے دردناک طریقہ سے قتل کیا، لیکن ان کے قتل پر ہم گریہ و ماتم نہیں کرتے؛ تو پھر امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کی وجہ کیا ہے، کیوں ہماری حالت دگرگوں ہوتی ہے اور ایام عزاء کے دوران ہم ایک خاص قسم کی کیفیت کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت وہ غم ہے کہ جس نے پورے انسانی معاشرہ کو متغیر کیا ہے اور اس کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ عمیق تر نظر آتے ہیں۔

کسی بھی انسان کی موت پر غمزدہ ہونا انسانی فطرت ہے۔ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سینکڑوں سال قبل انتقال کرچکے ہیں۔ آج بھی ان کے یومِ وصال پر ویٹی کن سٹی میں لاکھوں کی تعداد میں عیسائی جمع ہوتے ہیں اور سکوت کے ذریعے ان سے وابستگی اور احترام کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سوگ منانے کا مطلب محض سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر کھڑے رہنے کا نام نہیں! ماہِ محرم کے آغاز سے ہی ہمارا قلب درد و حزن کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ ہماری روح اس درد سے متصل ہو جاتی ہے اور جی نہیں چاہتا کہ خوشی کا اظہار کریں۔ غمِ حسینؑ وہ کیفیت ہے، جس سے انسان کی زندگی کا اسلوب تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام بہترین مثال ہے، جو ہماری احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔

آپؐ فرماتے ہیں: ان لقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المؤمنین لا تبرد ابدا۔ اللہ نے ایک ایسا شعلہ اہلِ ایمان کے قلوب میں پیدا کر دیا ہے کہ جب کسی صاحبِ ایمان شخص کو قتلِ حسینؑ کی خبر پہنچتی ہے تو اس کی حرارت اُس کے دل میں ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حسینؑ ابن علیؑ کے لئے ایک خاص اہتمام کیا ہے، جس کی وجہ سے نبی کریمؐ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

علامہ امین شہیدی نے "مودتِ حسینؑ" کو انسان کے ارتقاء کا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ روح کے زندہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں پر ردِعمل ظاہر کرے، جن میں اللہ کی چاہت شامل ہو۔ جسم کی نسبت روح کی ضروریات کا تعلق انسانیت سے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ جسمانی طور پر زندہ، لیکن روحانی طور پر مردہ ہوں۔

انسانی زندگی دراصل الہیٰ زندگی ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے کہ وہ لوگ جو ان باتوں پر ایمان لائے، جن کی اللہ کے رسولؐ نے دعوت دی ہے تو یہ دعوت انہیں زندہ کر دے گی۔ یہ خطاب دراصل زندہ انسانوں سے ہے، مُردوں سے نہیں۔ اسی طرح حسینؑ ابن علیؑ کو دل میں بسانے کے لئے جس زندگی کی ضرورت ہے، وہ مادی و بدنی زندگی نہیں ہے۔ یہ وہ زندگی ہے، جس میں روح زندہ ہو اور جس کی روح زندہ ہے، وہ امام حسینؑ سے وابستہ ہے۔ جس شخص کی زندگی ملکوتی ہے، اس کا عشق اور محور و مرکز حسینؑ ابن علیؑ کی ذات ہے۔ اس پاکیزہ زندگی کا اثر مادی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ یاد رکھئے کہ ارتقائی منازل طے کرنے کے لئے حسینؑ ابن علیؑ سے عشق کرنا ضروری ہے اور اس سفر کی پرواز کے لئے جو پَر درکار ہیں، ان کا نام "مودتِ علیؑ و آلِ علیؑ" اور "مودتِ حسینؑ" ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .